افغانستان پر سامراجی غلبہ کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک نئے مرحلہ میں داخل ہو گئی ہے۔ اب سامراج کی کوشش یہ ہو گی کہ امارت اسلامیہ کو ایک سرمایہ دارانہ ریاست بنا کر اس کو عالمی سرمایہ دارانہ سامراجی نظام میں ضم کر لے۔ اس نئی سامراجی یلغار میں سامراج جو نظریاتی ہتھیار استعمال کرے گا وہ ہیومن رائٹس کی پابندی پر اصرار ہے۔ اگر ہم اس محاذ پر پسپا ہو گئے تو گاہے گاہے افغان جہاد کے تمام ثمرات ہاتھ سے دھوتے چلے جائیں گے۔

ہیومن رائٹس کی حقیقت

ہیومن رائٹس کا نظریہ سترھویں صدی یورپ کی ایجاد ہے اور  ہیومن رائٹس سرمایہ داری کے کلمہ خبیثہ لا الہ الا الانسان کی تشریح ہیں۔ اسی نظریاتی بنیاد پر سرمایہ دارانہ جمہوریتیں قائم ہوتی ہیں۔ یہ جمہوریتیں لبرل بھی ہو سکتی ہیں اور استبدادی بھی مثلا چین۔ یہ دونوں قسم کی جمہوریتیں ہیومن رائٹس کے تقدس کو تسلیم کرتی ہیں۔ ہیومن رائٹس کے تقدس کو تسلیم کرنا ایک سرمایہ دارانہ جمہوری ریاستی نظام کے قیام کی طرف پہلا قدم ثابت ہوتا ہے۔

فلسفہ ہیومن رائٹس کا ایک اہم موجد سترھویں صدی کا مفکر جان لاک ہے۔ اس نے جس بنیادی مفروضہ پر ہیومن رائٹس کا نظریہ واضح کیا وہ یہ ہے کہ انسان اپنے جسم اور تمام جسمانی قوتوں کا خود خالق اور مالک ہے۔ اور اس کا حق اور فرض یہ ہے کہ ان جسمانی قوتوں کو اس طرح استعمال کرے کہ اس کے تصرف فی الارض میں لامتناہی اضافہ ہوتا چلا جائے۔ تصرف فی الارض کا ذریعہ بڑھوتری سرمایہ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

لاک اور اس کے جدید سامراجی پیروؤں کے مطابق انسان کا حق اور فرض ہے کہ اپنی جان، املاک اور رائے کو بڑھوتری سرمایہ کے لیے وقف کر دے۔ ہیومن رائٹس وہی حقوق ہیں جو ہر فرد کو انفرادی طور پر اپنی جان، املاک اور رائے کو بڑھوتری سرمایہ کے لیے وقف کرنے کا مکلف بناتی ہیں۔ ہر سرمایہ دارانہ ریاست سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہیومن رائٹس کو فروغ دے کر تحکم قانون سرمایہ کو یقینی بنائے۔تفصیل اس اجمال کی ہماری کتاب Capitalist Values and Ideologies کے ضمیمہ ۵میں بیان کی گئی ہے۔

سامراج اپنا یہ حق محفوظ رکھتا ہے کہ جو لوگ ان ہیومن رائٹس کو نہیں مانتے یعنی جو اپنی جان، املاک اور رائے کو بڑھوتری سرمایہ کے لیے وقف نہ کریں انہیں وہ بے دریغ قتل کرے اور ان پر تحکم قانون سرمایہ یعنی جمہوریت مسلط کر دے۔ اسی خبیث عقیدہ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے امریکا نے آٹھ کروڑ قدیم باشندوں (ریڈ انڈینز) کو قتل کیا اور اس وقت کے سرمایہ دارانہ مفکرین مثلاً جیفرسن، ہیگل  اور لاک وغیرہ نے اس عمل کو خوب سراہا۔

اسی خبیث نظریہ پر عمل پیرا رہ کر امریکا نے اکیس سال تک افغانستان میں قتل و غارت اور لوٹ مار جاری رکھی اور تحکم قانون سرمایہ ملک پر مسلط کر دیا۔ اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ جس خبیث نظام تحکم کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے مجاہدین اسلام نے عدیم المثال قربانیاں دی ہیں اسی خبیث نظام کی تشکیل نو کی طرف اب طالبان حکومت مراجعت کرے۔

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ طالبان عالیشان نے جہاد فی سبیل اللہ عالمی سرمایہ دارانہ نظا م میں اپنا حصہ محفوظ کر کے شامل ہونے کے لیے نہیں کیا۔ جیسا کہ کل ویٹ کانگ نے کیا تھا اور آج کولمبیا میں فارک کے گوریلے کر رہے ہیں۔ طالبان کا مقصد سرمایہ دارانہ نظاماتی احیا نہیں (جیسا کہ قوم پرستوں اور اشتراکیوں کا ہمیشہ ہوتا ہے) ان کا مقصد سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی ، معاشرتی اور سیاسی تسخیر ہے۔

امارت اسلامیہ میں ہیومن رائٹس کے خبیث نظریہ پر عمل درآمد کی کوئی گنجائش نہیں۔ بلکہ دشمن کے اسی نظریاتی ہتھیار کو جو لوگ استعمال کر کے ملکی سالمیت کو  سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کو سخت ترین سزائیں دینی چاہئیں۔ بنیادی طور پر یہ دو گروہوں پر مشتمل ہیں۔

میڈیا کی آزادی کی دہائی دینے والے

پینٹاگون کے عبوری تخمینہ کے مطابق 80 ہزار سے ایک لاکھ تک افغانیوں نے امریکی قوت کا براہ راست ساتھ دیا۔ یہ افغانستان کی مجموعی آبادی کا تقریباً اعشاریہ صفر تین فیصد بنتا ہے (مقبوضہ ویت نام کے مقابلہ میں یہ تعداد بہت کم ہے)۔ اس کے علاوہ سامراج کے حلیف اعلیٰ سرکاری نوکر شاہی، فوج، سرمایہ کاروں اور اساتذہ اور دہریہ مفکرین میں بھی موجود ہیں۔ یہ سب آزاد میڈیا کے فروغ کے متوقع حمایتی ہیں۔

میڈیا کی آزادی کا مطلب ہے کہ اس کواس بات کی کھلی چھٹی دینا ہے کہ سامراجی سرمایہ داری کی وکالت کرتا رہے۔ یہی کردار افغان سرکاری اور نجی مڈیا بالخصوص ٹی وی چینلز 2001ء سے لے کر 2021ء تک ادا کرتے رہے ہیں۔ اور دونوں پر سامراجی سرمایہ دارانہ تسلط مستحکم رہا ہے۔ اس طریقہ کار کو سرکاری طور پر برداشت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ طالبان سامراجی تخریب کاری کا راستہ کھلا چھوڑ دیں۔ ہماری میڈیا پالیسی کا مقصد تخریب کاری کے اس سامراجی دروازہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دینا ہونا چاہیے تاکہ تحکم سرمایہ (یعنی جمہوری نظام ) کے دوبارہ قائم ہونے کے تمام امکانات ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔

لہٰذا ہماری میڈیا پالیسی کے اجزا حسب ذیل ہوں:

1۔ تمام میڈیا اداروں کو فی الفور قومیا لیا جائے۔

2۔ تمام غیر ملکی صحافیوں کو فوراً ملک بدر کر دیا جائے۔

3۔ نشریات پر علما کی ماتحتی میں اسلامی اصولوں کے مطابق سنسرشپ کا نفاذ

4۔ تمام انٹرنیٹ سروسز پر سرکاری نگرانی اور کنٹرول کا انتظام

5۔ ایک ملک گیر انٹرنیٹ سرور پلیٹ فارم کا قیام

6۔ دیہی اور مضافاتی علاقوں میں قومی انٹرنیٹ سروسز کی فراہمی کا انتظام

عورتوں کی سرمایہ دارانہ آزادیوں کی دہائی دینے والے

آج سامراج سب سے زیادہ زور افغان عورتوں کو گھر سے نکال کر بازار میں بٹھانے پر دے رہا ہے۔ عورتوں کی ملازمت کو فروغ دینا سرمایہ دارانہ معاشرت اور اس سے ملحقہ عریانی اور فحاشی پھیلانے کا کلیدی ذریعہ ہے۔

اس کا تلخ ترین تجربہ ہمیں ایران میں ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ جہاں انقلابی دور کی ابتدا سے آج تک حکومت اور علما نے عورتوں کی ملازمت کے ضمن میں رخصت کا رویہ اختیار کیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں ایران میں عیاشی اور فحاشی ایک سیلاب کی طرح امڈ آئی ہے اور یہ اسلامی ریاست کے لیے سب سے بڑا معاشرتی چیلنج بن گیا ہے۔

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے اور عورتوں کو سمجھا دینا چاہیے کہ تحریک نسوانیت دراصل ردِ نسوانیت کی تحریک ہے جو عورتوں سے ان کی نسوانیت چھین کر ان کو بڑھوتری سرمایہ کا آلہ کار بنانے کی جستجو کرتی ہے۔ پوری اسلامی تاریخ میں ہم نے کبھی بھی کسب معاش کو نہ عورتوں کا حق گردانا نہ فرض۔ یہ اس لیے کہ چادر اور چار دیواری کا تقدس قائم رہے اور اسلامی خاندانی نظام اور روایات محفوظ رہیں۔

اپنے دور تسلط میں سامراجی تحکم کی ایک اہم کامیابی یہ ہے کہ افغان خواتین کی ایک بڑی تعداد کو اس نے کسب معاش پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ نظام افغان قبائلی روایات کے بالکل خلاف ہے اور اس کی روک تھام میں ہمیں یقیناً معاشرتی تعاون حاصل ہو گا۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل پالیسیوں پر عمل درآمد ممکن ہے:

1۔ سرمایہ دارانہ (صنعت و مواصلات) اور سرکاری شعبوں میں عورتوں کی نئی ملازمتوں کی فراہمی پر پابندی بالخصوص اعلیٰ عہدوں پر۔

2۔ آجروں اور مینجروں کو اس بات پر راضی کیا جائے کہ وہ عورتوں کی کل وقتی ملازمت کو جزوقتی ملازمتوں میں تبدیل کریں۔

3۔ ملازم خواتین کی وضع قطع اور نشست و برخاست میں شرع مطہرہ کی تعلیمات پر عمل درآمد کا ملازمت فراہم کرنے والا ذمہ دار ہو اور اس کی حتی الوسع ریاستی نگرانی کی جائے۔

4۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ ملازمت فراہم کرنے والے اداروں کو عورتوں کے کام کو دفر میں نہیں بلکہ گھروں اور قبیلوں میں منظم کرنے کی ترغیب دی جائے۔

5۔ عورتوں کی تعلیم اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی بجائے مدارس میں منظم کی جائے۔

6۔ صرف میڈیکل تعلیم غیر مدارس اداروں میں منظم کی جائے۔ اس میں اعلیٰ ثانوی تعلیم کی فراہمی کا بھی انتظام ہو۔

یہ سب انقلابی اقدام ہیں اور ان کا مقصد ایک غیر سرمایہ دارانہ غیر جمہوری معاشرت اور ریاست کی بنیادیں فراہم کرنا ہے۔ طالبان کو اور افغانستان کے دیگر اسلامی گروہوں کو احساس ہونا چاہیے کہ جہاد ختم نہیں ہوا بلکہ تعمیر ریاست اور تعمیر معاشرت کے کٹھن مرحلہ میں داخل ہو گیا ہے۔ طالبان مکی دور سے گزر کر مدنی دور میں داخل ہو گئے ہیں اور مدنی دور جہاد کے تسلسل کا دور ہے۔

جاوید اکبر انصاری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *