امارت اسلامیہ میں سرمایہ دارانہ نظم معیشت کے انہدام کی بنیادی شرط
سرمایہ داری ایک ایسا مکمل اور خودکفیل نظم حیات اور طرز زندگی ہے جو پوری دنیا پر غالب ہے۔ اس کی اصل وہ خبیث روحانیت، اخلاقیات اور عملیات ہے جو دہریہ تصور مابعد الطبیعات میں بیان کی جاتی ہے۔اس خبیث روحانیت کے مفروضات حسب ذیل ہیں:
1۔ انسان ہیومن بینگ ہے ایک ایسا قائم بالذات ، صمدی وجود ہےجو اپنی ذات اور کائنات خود تخلیق کرتا ہے۔
2۔ کائنات کا وجود ایک غیر مقصدی حادثہ ہے لیکن کائنات کا وجود ابدی ہے۔
3۔ حقیقت محسوسات کے وجود تک محدود ہے اور ہیومن بینگ کی عقل ان محسوسات کے شعور کی بنیاد پر تصورات قائم کرتی ہے۔
4۔ ہیومن بینگ کی غالب فطری جبلت حیوانی ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد اپنی اس فطری جبلت کا تصرف فی الارض کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ اظہار کرتے رہنا ہے۔
5۔ عقل اس فطری جبلت (نفس امارہ) کی غلام ہے۔ وہ ایسے اخلاقی اصول اور عملی طرائق وضع کرتی ہے جن کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ ہیومن بینگ زیادہ سے زیادہ تصرف فی الارض کے مکلف ہو سکیں۔
ان عقائد کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ انفرادیت و معاشرت کا کارفرما رہتی ہے۔ یہ ایک ایسی انفرادیت اور معاشرت ہوتی ہے جہاں حرص اور حسد اور شہوت اور غضب غالب تمدنی محرکات کا کردار مستقل انجام دیتے رہتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ انسان ہیومن بینگ بنتے رہتے ہیں اور اپنے قلب اور اپنی عقل کو اپنے نفس امارہ کے سپرد کرتے رہتے ہیں اور اس فاسد عقیدہ کو عملی جامہ پہناتے رہتے ہیں کہ معقول بات یہی ہے کہ اپنے عمل کے ذریعہ اپنے اور اپنے معاشرہ کی نفسانی خواہشات کو پورا کیا جاتا رہے۔ سرمایہ دارانہ معاشروں میں قومی مفاد اسی چیز کو کہتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ کسی اسلامی ریاست کے لیے اس تصور قومی مفاد کو قبول کرنا ناممکن ہے۔
امارت اسلامیہ کے قیام اور کارفرمائی کا مقصد تمتع فی الارض میں مستقل اضافہ نہیں اس کے تمام باشندوں کے لیے اخروی نجات کا حصول ہے۔ لہٰذا امارت اسلامیہ کو ایسی انفرادیت اور معاشرت قائم کرنے کی کوشش کرنا ہے جس میں اخروی کامیابی کا حصول اصل محرک  عمل ہو۔ اس کی قومی معاشی پالیسی کا یہی اصل ہدف ہونا چاہیے۔
سلطنت عثمانیہ کے سقوط تک پورے بارہ سو سال میں ہر اسلامی ریاست نے ایسی ہی معاشی پالیسی اختیار کی اوران کے باشندے عموماً عمل معاش کو معاد کمانے کا ایک ذریعہ ہی گردانتے رہے۔ لہٰذا مسلم معاشروں میں حرص اور ہوس عام نہ ہوا اور اسلامی انفرادیت فروغ پاتی رہی لیکن انیسویں صدی میں سرمایہ دارانہ سامراجی غلبہ نے اسلامی معیشتوں کو تباہ کر دیا۔ سامراجی غلبہ محض عسکری اور سیاسی نہ تھا۔ روحانی اور علمیاتی بھی تھا۔ اس غلبہ کے نتیجہ میں ایک ایسی انفرادیت معاشرہ میں غالب آئی جو تصرف فی الارض میں مستقل اضافہ کو مقصد حیات گردانتی ہے۔
اس انفرادیت کے معاشرتی، ریاستی غلبہ کے نتیجہ میں دہریانہ عقلیت مقبول عام ہوئی اور عوام میں بھی یہ نظریہ عام ہو گیا ہے کہ نفس امارہ کے احکامات کی مستقل غلامی کرتے رہنا عقل کا تقاضا ہے۔ جاہلی علم اکنامکس کے منہج نے معاش کا تعلق معاد سے بالکل منقطع کر دیا ہے اور مسلم ممالک کی معاشی پالیسیاں اسی خبیث منہج کی بنیاد پر مرتب ہونے لگی ہیں۔
ستم ظریفی یہ کہ ترمیمی علما نے سرمایہ دارانہ نظام کی اسلام کاری کا بیڑا اٹھایا اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ تمتع فی الارض کی مستقل جدوجہد کرتے رہنا شرعی حدود میں رہتے ہوئے جائز بلکہ مستحسن ہے۔ اس معذرت خواہی کی پلید ترین شکل اسلامی بینک کاری ہے جس نے سود کے مارکیٹ اور سٹے کے مارکیٹ کے لاتعداد کاروباری معاہدوں کا شرعی جواز بیان کیا اور ان معاہدوں پر عمل داری کے نتیجہ میں ہر سال اربوں ڈالر مسلم ممالک سےکافروں کے بینکوں کے میں منتقل ہوتے رہتے ہیں اور اسلامی بینک کاری کا نظام (بالخصوص ملائشیا اور عرب ممالک  میں) عالمی سودی اور سٹہ کے کاروبار کا جزولاینفک بن گیا ہے۔
آج افغانستان میں اسلامی بینک کاری کے فروغ کی جدوجہد کی جا رہی ہے اگر یہ کوشش  کامیاب ہو گئ تو یقیناً امارت اسلامیہ عالمی سودی اور سٹہ بازی کے نظام میں ضم ہو جائے گی۔
سود اور سٹہ کے شرعی حیلوں کا سہارا لے کر ایک اسلامی معیشت قائم نہیں کی جا سکتی۔ اسلامی معاشی نظام کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسی انفرادیت عام ہو جو حریص اور حاسد نہ ہو اور جو معاشی عمل کو معاد کمانے کا ذریعہ سمجھے۔ یہ معیشت لازماً ایک جہادی معیشت ہو گی۔
جہادی معیشت کے خدوخال
1۔ جہادی معیشت کے قیام کا مقصد ایک ایسی انفرادیت کی عمومیت ہے جس کے معاشی عمل کا محرک اخروی کامیابی کا حصول ہو۔ تمتع فی الارض نہ ہو۔
2۔ اس نوعیت کی انفرادیت کا معاشرتی غلبہ دھیرے دھیرے اور بتدریج ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔
3۔ سرمایہ دارانہ سامراج کے عالمی غلبہ کے دور میں اس قسم کی انفرادیت کا فروغ ریاستی عمل ہی کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔ مسلم معاشروں میں یہ سکت نہیں کہ اس نوعیت کی شخصیت کا نظاماتی غلبہ قائم کریں۔
4۔ امارت اسلامیہ کی ریاستی اشرافیہ (یعنی طالبان عالیشان) اپنے بیس سال سے جاری عمل سے ثابت کر چکے ہیں کہ وہ حریص اور حاسد نہیں دین کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں اور معاد کو معاش پر ترجیح دیتے ہیں۔
5۔ لہٰذا ان کا حق ہے کہ وہ ملک کے تمام معاشی وسائل کے استعمال کا ایسا طریقہ وضع کریں جس کے نتیجے میں حرص و ہوس سے پاک انفرادیت عام ہو۔
6۔ اس انفرادیت کے فروغ کے لیے قومی معاشی منصوبہ بندی لازم ہے۔
7۔ اس منصوبہ بندی کے ذریعے معیشت کی ہر سطح پر جو ادارتی صف بندی کی جائے اس میں طالبان، علماء، صوفیا اور مخلصین دین کی قیادت قائم ہو۔
8۔ اس قیادت کی کوشش ہو کہ معاشی اور روحانی اور اخلاقی تربیت کی جدوجہد کو اداراً مربوط کرے۔ یہ قیادت لاکھوں علما اور مخلصین دین پر مشتمل ہو اور پورے ملک میں معاشی صف بندی کا ایک ایسا وسیع جال بچھا دے جو ملک کے روحانی اور اخلاقی تربیتی نظام سے مربوط ہو۔
9۔ ملکی منصوبہ بندی میں یہ پوری کی پوری عوامی انتظامیہ شریک ہو اور ایک فعال کردار ادا کرے۔ملک گیر معاشی تنظیم کی قیادت اسی عالی قدر روحانی ترفع اور ایثار اور قربانی کی مثالیں پیش کرے جو طالبان عالیشان نے بیس سالہ جہاد کے دوران دکھائی ہے۔
10۔ ملک گیر منصوبہ بندی کے اہداف ہوں1) ملکی جہادی استطاعت میں اضافہ،2) عوامی بنیادی ضروریات کی فراہمی
11۔ بنیادی ضروریات سے مراد خورا، لباس، رہائش، توانائی اور تعلیم کی ضروریات۔ ان ضروریات میں مستقل اضافہ منصوبہ کا ہدف نہ ہو۔ بلکہ ضروریات زندگی میں اضافہ آبادی سے منسلک کیا جائے۔ ملکی معیشت تعیشات کا اخراج بھی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کے منصوبہ کا حصہ ہو۔ منصوبہ بندی مادی وسائل کے تخمینوں کے مطابق ہو۔ ملک میں زری گردش Circulation of Money))کے لحاظ سے نہ ہو۔
12۔ جہادی استطاعت میں اضافہ کے لیے ضروری ہے کہ پیداواری اور خدمتی دولت کا وہ حصہ جو تصرفی اخراجات میں خرچ ہو رہا ہے بڑھتا رہے اور یہ فاضل پیداواری شرح میں مستقل اضافہ ہوتا رہے۔ پیداواری شرح میں مستقل اضافہ ملکی منصوبہ کا کلیدی ھدف ہو ۔
13۔ ان اہداف کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ ریاستی نظام کو اختیار ہو کہ
​1۔ زرعی فاضل پیداوار (یعنی وہ جو کاشت کاروں کی ضرورت سے زیادہ ہو) اور بازار میں بکنے کے لیے لائی جائے ، کی ترسیل کو منظم کرے۔
​2۔ تمام بڑے صنعتی اور قومی ادارے اس کی تحویل میں ہوں۔
​3۔ بین الاقوامی تجارت اور ترسیل زر پر ریاست کی اجارہ داری قائم ہو۔
​4۔ اجرائے زر اور قرضہ جات کے اجرا پر ریاست کا مکمل کنٹرول ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام بینکوں وغیرہ کو قومیا لیا جائے۔ اسلامی بینک کاری کے فراڈ سے گریز کیا جائے اور سود اور سٹہ مارکیٹ کو کالعدم قرار دیا جائے۔
​5۔ بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام سے تعلق منقطع بتدریج کیا جائے۔ آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او وغیرہ سے افغان حکومت باہر آ جائے۔ اپنے زر مبادلہ کی شرح خود متعین کرے۔ عالمی سرمایہ کاری پرپابندیاں عائد کی جائیں۔
​6۔ قیمتوں کی سطح میں تغیر کا اختیار ریاست کو ہو۔
​7۔ فاضل پیداوار اور دولت کا بڑا حصہ حکومت کی تحویل میں ہو اور حکومتی پیداواری اور جہادی اخراجات میں مستقل اضافہ ہوتا رہے۔
سامراج اور اس کے حلیفوں کی خواہش ہے کہ امارت اسلامیہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ضم ہو جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ بھیک دینے کا وعدہ کرتے ہیں اور اس بھیک کی فراہمی کی دوبنیادی شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ طالبان افغانستان میں عورتوں کی عریانی، فحاشی اور بدمعاشی کو برداشت کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اس کو عالمی ہیومن رائٹس کی پاسداری کہا جاتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ حکومت میں سامراجی گھس بیٹھیوں کو شامل کرے۔ آج مختلف حکمران سامراج کے وکیل بنا ہوہے ہیں-۔
اگر سامراج اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو گیا تو انقلاب اسلامی کا خواب کبھی بھی پورا نہ ہو سکے گا اور طالبان وہ جنگ جو انہوں نے میدان میں بے مثال قربانیاں دے کر جیتی ہے حکومت کے ایوانوں میں ہار جائیں گے۔
ان شاء اللہ ایسا کبھی نہیں ہو گا اور طالبان افغانستان میں ایک جہادی معیشت قائم کر لیں گے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *