پاکستانی دہریہ جماعتوں کی افغان پالیسی
پاکستان میں دو قسم کی دہریہ جماعتیں ہیں۔ ایک وہ جو کھلم کھلا اسلام دشمن ہیں مثلاً پیپلز پارٹی، ا ین پی اور متحدہ قومی موومنٹ اور دوسری وہ جو اسلام کو اپن قوم پرستانہ سیاسی ایجنڈ ے کی ایک ذیلی شق تصور کرتی ہیں مثلاً تحریک انصاف اور مسلم لیگ۔
ان دونوں قسم کی دہریہ جماعتوں میں دو  رویے مشترک ہیں۔ ایک یہ کہ دونوں سرمایہ دارانہ تعقل پر ایمان رکھتی ہیں اور ان کے خیال میں واحد مقبول توجیہی عمل صرف وہ ہ جو ملکی سطح پر ارتکاز سرمایہ کو فروغ دے۔
دوسری مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ اسلام دشمن اور اسلام نواز دونوں قسم کی دہریہ جماعتیں سامراج کی پیداوار ہیں اور سامراج کے وضع کردہ نظم ریاست ہی میں اقتدار لین کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ ان کا سامراجی مربی امریکا بھی ہو سکتا ہے اور چین بھی، روس بھی لیکن امریکا ان کی اولین ترجیح ہے کیوں کہ امریکی غلبہ اس برطانوی سامراجیت کا فطری تسلسل ہے جو اس نے ان دہریہ جماعتوں کو پالا پوسا ہے۔
دہریہ جماعتوں کے ان مشترکہ خصائص کی وجہ سے ان کا تصورِ قومی مفاد بھی یکساں ہے۔ اسلام دشمن اور اسلام نواز دونوں قسم کی دہریہ جماعتوں کا تصورِ قومی مفاد یہ ہے:
1۔ پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام معاشرت اور معیشت تیزی سے ترقی کرے۔
2۔ اس نظام معاشرت اور معیشت کی تیز رفتار ترقی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی استحکام قائم رہ۔
3۔ سیاسی اور معاشی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی عسکری صلاحیت میں ترقی ہوتی رہے۔
4۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام اقدار پاکستانی معاشرت اور معیشت میں پیوست ہوتی چلی جائے اور پاکستانی ریاستی اشرافیہ بآسانی سامراجی بھیک اور قرضہ حاصل کرتی رہے۔
قومی مفاد کا یہ فاسد تصور اسلامی تاریخ کے لیے بالکل اجنبی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلامی ریاستیں جو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر خلافت عثمانیہ کے سقوط تک بارہ سو سال تک قائم رہی، کبھی اور کہیں بھی قومی ریاستیں نہ تھیں۔ اسلامی ریاستیں ہمیشہ اور ہر جگہ پابند شریعت مطہرہ رہی ہیں اور ان کی کارفرمائی کا مقصد ہمیشہ اور ہر جگہ حصولِ مقاصد شریعہ ہی رہا ہے۔ بڑھوتری اور ارتکاز سرمایہ کو فروغ دینا کبھی بھی اسلامی ریاستی پالیسی کا ہدف نہیں رہا اور نہ کبھی رہ سکتا ہے کیونکہ اسلام تو اس کا مطالبہ کرتا ہے کہ معاشی عمل کو معاد کمانے کا ذریعہ بنایا جائے۔ اسلامی ریاستی حکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہوتے ہیں وہ عوام کے نمایندہ نہیں ہوتے۔ وہ تحکم قانون سرمایہ کو ناممکن بنا دیتے ہیں۔ پھر اسلامی ریاستیں ہمیشہ اور ہر جگہ جہادی ریاستیں ہوتی ہیں۔ وہ عالمی نظام اقتدار کفر میں ضم ہونے کی کوشش نہیں کرتیں بلکہ اپنی مسلسل یلغار کے ذریعے اس کو اپنی سرحدوں سے مستقل پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جہاد وہ ریاستی فریضہ ہے جو کسی سلطان نے کبھی ترک نہ کیا۔ اکبر جیسے گمراہ بادشاہ تک نے نہیں۔
پاکستان کی دہریہ سیاسی جماعتوں کے تصورِ قومی مفاد اور اسلامی تصورِ ریاستی مفاد میں بنیادی فرق ہے۔ ان جماعتوں کی افغان پالیسی ان کے مفروضہ تصورِ قومی مفاد کی عکاس ہو گی۔ اس پالیسی کی تنفیذ کا ایک تضاداتی پہلو ہے۔
ایک طرف تو ان دہریہ جماعتوں خواہ اسلام دشمن خواہ اسلام نواز، کی کوشش ہو گی کہ اپنے سرمایہ دارانہ نظاماتی مفادات کو فروغ دینے کے مواقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ تجارت اور سرمایہ کاری کا فروغ ہو۔ افغان تارکین وطن جو پاکستان آ گئے ہیں ان کی واپسی کا انتظام کیا جائے۔ اسلامی حکومت پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کو محفوظ کر دے(جیسا کہ 1996ء تا 2001ء میں کیا گیا تھا)۔ افغانستان میں بھارتی اثر و رسوخ کمزور پڑے وغیرہ۔
لیکن ان پاکستانی قومی مفادات کے حصول کے لیے یہ بھی مفید ہو گا کہ اسلامی حکومت کم از کم بتدریج سرمایہ دارانہ نظاماتی اصول اور ضوابط پر آمادہ ہوتی چلی جائے اور اسلامی حکومت اسلامی ریاست کے قیام اور استحکام کی جدوجہد کو بتدریج ترک کرتی چلی جائے۔
لہٰذا پاکستان کی دہریہ جماعتیں خواہ اسلام دشمن خواہ اسلام نواز، افغان معیشت اور معاشرت کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ضم کرنے کی مضموم سامراجی مہم کی اعانت کریں گی۔ عمران خان پہلے سے یہ کوشش کر رہا ہے کہ کسی نہ کسی طرح طالبان امریکی نظاماتی بالادستی کو قبول کر لیں۔ افغانستان میں مخلوط حکومت قائم ہو جس میں سامراج کے پٹھو شریک ہوں۔ وہاں رہاستی دستور سازی کا عمل جاری رہے۔ طالبان حقوق آزادی اور ہیومن رائٹس کے تقدس کو تسلیم کر کے ان کی پابندی کا وعدہ کر لیں۔ معیشت کو خالص سرمایہ دارانہ اصولوں کے مطابق مرتب کیا جائے۔ اسلامی بینک کاری کو سرمایہ دارانہ ملکیت کو فروغ دینے کا ذریعہ بنایا جائے۔ سامراجی گھس بیٹھیوں بالخصوص اقوام متحدہ اور اس کی ایجنسیز کو افغان تعلیمی اور صنعتی شعبہ پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی اجازت دی جائے، عورتوں کی ملازمت کو فروغ دے کر طالبان کی حکومت عصمت فروشی اور فحاشی کو برداشت کرنے پر آمادہ ہو جائے۔
پاکستان کی تمام دہریہ جماعتیں خواہ اسلام دشمن خواہ اسلام نواز، سرمایہ دارانہ جماعتیں ہیں جو امریکا سے خصوصی وابستگی رکھتی ہیں۔ ان جماعتوں کی قیادت کا پیسہ بھی امریکا میں ہے اولاد بھی امریکا میں اور ان کی ذہن سازی بھی امریکیوں نے کی ہے۔ ان کی سیاسی حکمت عملی کا پورے کا پورا دارومدار سامراجی بھیک اور سامراجی قرضوں کے حصول پر ہے۔ یہ قومی خود انحصاری کا تصور تک نہیں کر سکتیں۔ یہ عالمی سرمایہ دارانہ سامراج کے اٹوٹ انگ ہیں۔
طالبان کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ سامراج پاکستانی ریاستی نظام کو افغانستان میں تخریب کاری کرنے کے لیے استعمال کرنے کی استطاعت بھی رکھتا ہے اور ارادہ بھی لیکن یہ ضروری نہیں کہ سامراج اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو۔ طالبان کیلئے چیلنج یہ ہے کہ وہ ایسی تزویراتی حکمت عملی تخلیق کریں جس کی تنفیذ کے نتیجہ میں پاکستان کی دہریہ حکومتیں اپنی قومی دفاعی اور معاشی مفادات کے حصول کے لیے افغانستان میں ایک اسلامی ریاستی کے بتدریج قیام کو قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن مندرجہ ذیل اقدامات پر غور کیا جا سکتا ہے۔
1۔ پاکستان سے ایک دفاعی معاہدہ کرنے کی کوشش جن میں افغان حکومت ہماری شمال مغربی سرحدوں کی حفاظت کا وعدہ کرے اور ہمیں اس بات کی ضمانت دیں کہ ہماری سرزمین سے سامراجی عسکری پیش رفت کی کوئی سہولت فراہم نہ کی جائے گی بالخصوص امریکا کو افغانستان کے no fly zoneبنانے میں پاکستان تعاون نہ کرے گا جس پر آج کل عمرانی حکومت سودے بازی کر رہی ہے۔
2۔ افغان حکومت اپنی پاکستانی تجارت کو قومیائے یعنی پاکستان کو افغان درآمدات اور پاکستان سے حاصل برآمدات کا کاروبار قومی اداروں کی تحویل میں ہو۔ اس تجارت میں افغانستان میں ریاستی اجارہ داری قائم ہو۔
3۔ پاکستان سے افغان معیشت میں دولت افزانی (investment) کے تمام منصوبے حکومت افغانستان سے مشترک ہوں اور مشارکت اور مضاربت کے اصولوں کے مطابق مرتب کیے جائیں۔ غیر مشترکہ نجی دولت افزانی اور سودی فنانسنگ کے معاہدوں کی اجازت نہ ہو۔ ٹریڈ کریڈٹاور کرنسی سویپ مینجمنٹ بھی غیر سودی بنیادوں پر مرتب کی جا سکتی ہیں۔
پاکستان کی اسلامی جماعتوں (سیاسی اور غیر سیاسی دونوں) کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستانی حکومت پر زور ڈالیں کہ وہ افغانستان میں سامراج کا آلہ کار بننے سے باز آ جائیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس ضمن میں پاکستانی اسلامی جماعتوں کا رویہ نیم دلی کا رہا ہے اور اتنی بڑی جہادی تاریخ ساز کامیابی کا جشن ملک بھر میں کہیں بھی نہ منایا گیا۔
صرف جمعیت علمائے اسلام نے مسلم لیگ کی ناراضی کے باوجود طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دیگر اسلامی سیاسی جماعتیں حکومت پر دباؤ نہیں ڈال رہی ہیں کہ حکومت پاکستان طالبان کی حکومت کو جلد تسلیم کر کے اپنی مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے معاہدات کے ذرئعے اپنی تزویراتی گہرائی میں اضافہ کرئے - 
تمام اسلامی جماعتوں کا فرض بھی ہے  اور ان مخلص مسلمانوں کا بھی جو مسلم لیگ اور تحریک انصاف میں شامل ہیں کہ وہ پاکستان کی دہریہ سیاسی جماعتوں کی قیادت پر زور دیں کہ وہ سامراج کی باجگزاری کرتے ہوئے افغانستان میں اسلامی ریاست کے قیام اور استحکام کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔
جاوید اکبر انصاری

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *