امارت اسلامیہ کے پہلے سال کے انقلابی اقدامات- چند تجاویز
الحمدللہ ایران کے بعد افغانستان میں ایک اسلامی ریاستی نظام کے قیام و دوام اور استحکام کے مواقع پیدا ہو گئے ہیں۔ یہ سامراجی سرمایہ دارانہ نظام کی عالمی تسخیر کی طرف دوسرا قدم ہے اور اگر یہ ریاستی عمل اس علاقہ میں جڑ پکڑ گیا تو انشاء اللہ ہم آخر کار عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو تباہ اور برباد کر دیں گے۔

کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے

یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بار پیدا

اسی لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی تمام اسلامی قوتیں بالخصوص جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی طالبان کی جدوجہد کی معاونت کریں۔

انقلابی حکومت کا پہلا سال خطروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ افغانستان پر سامراج کی یلغار جاری ہے اور اگر اس سال ایک مزاحمتی ادارتی ڈھانچہ نہ کھڑا کیا گیا تو عسکری جدوجہد سے حاصل ہونے والے تمام ثمرات کے کھو جانے کا خطرہ موجود ہے۔

اس مقالہ کا مقصد ان پالیسیوں کی نشان دہی ہے جو انقلاب کے پہلے سال میں اپنائے جائیں تو اسلامی ریاستی نظام مستحکم ہو سکتا ہے۔

پالیسی کے مقاصد
بنیادی مقصد ایک ایسی خود کفیل و خود انحصاری قومی معیشت اور معاشرت کے قیام کی جستجو کی ابتدا ہے جو ملک کو عالمی سامراجی سرمایہ دارانہ گرفت سے آزاد کروائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس سال قومی معاشرتی اور معاشی زندگی کا رخ اور رفتار متعین کرنے کی اسلامی حکومت ذمہ دار ہو اوراپنی معاشرتی اور معاشی پالیسیوں سے یقینی بنائے کہ افغانستان میں اقتصادی اور معاشرتی قوت سامراجی سرمایہ داروں کے ہاتھ سے نکل کر مخلصین دین کے ہاتھوں میں مرتکز ہو رہی ہے۔ اگر مخلصین دین اقتصادی اور معاشرتی قوت سے محروم رہے تو انقلاب دشمن قوتیں لامحالہ افغان ریاست کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں ڈبو دینے میں کامیاب ہو جائیں گی۔

سیاسی اقدام
دشمن آج دخول کی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور ہے۔ اس کے ہم نوا وہ سیاست دان ہیں جو غدار حکومت کے زعما (کرزئی، عبداللہ) یا اعلیٰ اہل کار تھے۔ یہ لوگ شہروں میں اب بھی ایک حلقہ اثر رکھتے ہیں اور اپنے گنے چنے حمایتیوں سے وقتاً فوقتاً ہنگامہ آرائی کروا رہے ہیں۔ شمالی علاقہ جات میں قوم پرست دہشت گرد بھی موجود ہیں۔ فاحشہ عورتیں اور اقوام متحدہ کے زیر سایہ چلنے والے این جی اوز بھی تخریب کاری میں ملوث رہیں۔ عوامی تخریب کاری کا بنیادی ذریعہ عالمی اور افغان میڈیا ہے جو سامراجی افواہ سازی کی فیکٹری بنا ہوا ہے۔

ان اسلام دشمن سامراج نواز قوتوں سے سختی سے نبٹنے کی ضرورت ہے۔ غدار سیاست دانوں سے کوئی مشاورت نہیں ہونی چاہیے۔ سرکاری اور نیم سرکاری نوکر شاہی کے سینئر اہل کاروں کو برطرف اور تبدیل کر دینا چاہیے۔ سامراج نواز اور عورتوں کے سرمایہ دارانہ حقوق کے نعرے لگانے والے مظاہرین کو سخت ترین سزا دینی چاہیے۔ میڈیا کو قومیا لینا چاہیے اور سامراجی میڈیا کے تمام نمایندوں کو فی الفور ملک بدر کر دینا چاہیے۔

اس کے برعکس حکومت کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ غیر پختون علماء اور قبائلی سرداروں کو حکومت کی ہر سطح میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔ غیر طالبان اسلامی گروہوں سے مستقل مشاورت اور مصالحت کا عمل جاری رہے۔ غیر طالبان اسلامی عسکریت پسندوں کو یہ سمجھانے کی مستقل کوشش جاری رہنی چاہیے کہ آج ایک مستحکم قومی اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد کیوں ضروری ہے۔ ریاستی استحکام کو تقویت دینے کا ایک اہم ذریعہ صوبائی اور ضلعی سطح پر حکومتی سطح پر حکومتی اختیارات کی بتدریج ترسیل بھی ہو سکتی ہے۔

انتظامی حکمت عملی کے رہنما اصول مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ معاشی ریاستی اختیارات کو کمیونٹی کی سطح تک پھیلانا

2۔ ملک بھر میں ایک جہادی معیشت اور معاشرت کا قیام

3۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ عوام مخلصین دین کی قیادت میں قبیلہ، گاؤں اور محلہ کی سطح پر منظم ہو کر مقامی معاشی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں اور یوں ان میں ریاستی عمل میں شرکت کا احساس پیدا ہو۔ مخلصین دین معاشی تگ و دو کو جہاد کا حصہ سمجھیں اور ایثار اور قربانی اور توکل اور زہد کا اعلیٰ معیار پیش کریں۔ افغان معاشروں میں ان روایات اور اخلاق حسنہ کا فروغ دینا ناممکن نہیں اور اگر ریاست علما اور صوفیا کی قیادت میں اس کام کا بیڑا اٹھائے تو بڑی حد تک عوامی حرص اور حسد کی تحدید ممکن ہے اور سرمایہ داری کی خبیث روحانیت اور اخلاقیات کو معاشرتی ستح پر شکست دی جا سکتی ہے۔

مقامی سطح تک معاشی اور معاشرتی اختیارات کی منتقلی کے لیے ضروری ہے کہ ایک وسیع مقامی انتظامیہ تشکیل دی جائے جس کے اہل کار مقامی مخلصین دین کے علاوہ علاقہ کے طالبان بھی ہوں اور یہ انتظامیہ مرکزی ریاست اور حکمران جماعت گہری وابستگی رکھے۔ اس علاقائی انتظامیہ کو قبائلی نظام سے پیوست کرنے کی بھی مستقل کوشش جاری ہو۔

اس ملک گیر مقامی انتظامیہ کی ایک اہم ذمہ داری معاشی اور معاشرتی اعداد جمع کرنا بھی جو تسلسل کے ساتھ مرکز میں قائم دفتر شماریات کو ترسیل کیے جاتے رہیں۔ مرکزی شماریاتی ادارہ کی ذمہ داری یہ کہ وہ قومی معاشی اور معاشرتی اعداد و شمار جمع کرکے مرکزی اور صوبائی وزارت منصوبہ بندی کو فراہم کرتی رہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں مالیات، صنعت، زراعت اور تجارت کے محکمات قائم کرنے بھی ضرورت ہے۔

مالیاتی اقدام
افغانستان کا زری نظام کلیتاً سامراج کے زیرنگیں تھا اور ہے۔ مقامی کرنسی بے قدر ہوتی جا رہی ہے۔ سودی اور سٹہ بازی اپنے عروج پر ہے۔ غیر ملکی کرنسیوں کی آمد و رفت پر کوئی پابندی نہیں۔ تورم  (inflation)کی شرح بڑھ رہی ہے۔ اس زری بحران پر قابو پانے میں وقت لگے گا۔ پہلے سال میں مندرجہ ذیل اقدامات کی تنفیذ ممکن ہے۔

1۔ اسٹیٹ بینک کو مرکزی وزرات خزانہ کاایک ذیلی ادارہ قرار دیا جائے اس کی آزادانہ حیثیت کو ختم کیا جائے۔

2۔ بیرونی کرنسیوں کی آمدو رفت پر مکمل پابندی عاید کی جائے۔

3۔ تمام بینکوں، انشورنس کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کو قومی تحویل میں لیا جائے۔ مروجہ اسلامی بینک قائم نہ کیے جائیں۔

4۔ سٹہ کے مارکیٹ اور سٹہ کے کاروبار کو بند کیا جائے۔

5۔ چھے ماہ کے اندر اندر تمام قرضہ جاتی عہود کو مشارکت اور مضاربت کی بنیاد پر وضع کیا جائے۔

6۔ حکومت تمام بیرونی قرضوں کی ادائیگی منسوخ کر دے اور قرض دینے والوں سے شروع کی وضع نو پر مذاکرات شروع کرے۔

7۔ اسٹیٹ بینک تین ماہ میں اس بات کا اندازہ لگائے کہ ملک میں گردش کرنے والے زر اور قرضہ جات کا حکم کیا ہے اور ملکی پیداوار میں سال کے آخر تک دس فیصد اضافہ کے لیے کتنے زر اور قرضہ جات کی ضرورت ہو گی۔

8۔ اس تخمینہ کی بنیاد پر ایک نئی کرنسی اسلامی دینار کے اجرا کا انتظام کیا جائے جس کی عددی قدر ایک ہزار افغانی کے برابر ہو۔

9۔ اسلامی دینار بتدریج سال کے آخری نو مہینوں میں جاری کیا جاتا رہے اور اس عرصہ کے آخر تک ملک سے افغانی، روپیہ، ڈالر وغیرہ کی گردش کو ختم کر دیاجائے۔

10۔ حکومت تمام غیر ملکی کرنسیوں کی اسلامی دینار  کا شرع تبدل متعین کرے۔

11۔ گردش زر کو تیز کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک   Hoardingکی حوصلہ شکنی کرے توقع ہے کہ اس سے شرح تورم میں کمی آئے گی۔

12۔ اسلامی دینار ایک ایسی کرنسی ہو جیسے ڈالر یعنی اس کے پیچھے کوئی اثاثہ (سونا چاندی) بیرونی زر مبادلہ نہ ہو اس کی قدر صرف حکومتی اعتبار متعین کرے۔

13۔ ایک سال کے بعد افغانی نہ غیر ملکی کرنسیوں کا استعمال غیر قانونی قرار دیا جائے اور ان کرنسیوں کو استعمال کرنے پر سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔

14۔ اس نئی کرنسی کے اجرا کی مقدار اس بات ملحوظ خاطر رکھ کر متعین کیا جائے کہ اس کا منفی اثر شرح تورم پر نہ پڑتا ہو۔

15۔ اس نئی کرنسی کے اجرا کے نتیجہ میں حکومت بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے اندرونی اور بیرونی قرضہ لینے سے مستثنیٰ ہو جائے گی۔ لیکن وصول یابیوں  (taxation)کے نظام میں اصلاح کی ضرورت باقی رہے گی۔

زراعت
زراعت کا شعبہ افغان معیشت میں سب سے اہم ہے اور دیہی علاقوں میں انقلابی حکومت کی حمایت سب سے زیادہ ہے۔ زراعت کی اہمیت اس وجہ سے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ خوراک کی پیداوار کا ذریعہ بھی ہے اور ملازمتوں کی فراہمی کا ذریعہ بھی۔ سامراج افغانستان میں خوراک کا بحران پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا انقلابی حکومت کو زرعی شعبہ پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

دیہی علاقہ قبائلی معاشرت اور معیشت کا دل ہیں۔ ہر دیہی بستی میں ایسی تنظیم سازی کی ضرورت ہے جو عام کاشت کار کو ریاستی نظام اقتدار کا حصہ بنا دے اور اس کے دل میں یہ احساس پیدا کر دے کہ اسلامی حکومت اس کی اپنی حکومت ہے۔

دیہی کمیٹیاں زرعی شعبہ کے انتظام کی بنیادی ذمہ دار بنائی جائیں۔ انقلاب کے ابتدائی دور میں معیشت کا سب سے اہم ہدف تشفی بخش انداز میں خوراک کی فراہمی ہے۔ سامراج کی بھرپور کوشش ہو گی کہ افغانستان میں غذائی بحران پیدا کرے اور میڈیا مستقل یہ پروپیگنڈا کرتا رہے گا کہ افغان عوام بھوکے مر رہے ہیں۔ یہ ایک آزمودہ سامراجی چال ہے جو انقلاب کے ابتدائی دور میں استعماری روس، چین، وینزویلا، کیوبا ہر جگہ آزماتے رہے ہیں اور اپنی پیہم ناکامیوں کے باوجود اب بھی اس سے مایوس نہیں ہوئے۔

افغانستان میں غذائی بحران پیدا کرنے کی سامراجی کوششیں شروع ہو چکی ہیں اور آئی ایم ایف اور امریکی دہشت گردوں نے افغانستان کے بیرونی مالیاتی اثاثوں پر قبضہ جما لیا ہے تاکہ افغانستان اجناس اور درآمد نہ کر سکے۔ ملک میں اور بالخصوص دیہی علاقوں میں اس بات کی مستقل تشہیر کرنے کی ضرورت ہے کہ سامراج افغانستان میں غذائی بحران پیدا کرکے اسلامی نظام کو تباہ کرنا چاہتا ہے کہ ہر کسان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس مزموم سامراجی چال کو ناکام بنانے کی ذمہ داری قبول کرے۔

ملکی سطح پر اجناس کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو اجناس کے پیداواری اور ترسیلی نظام پر کنٹرول قائم کرنا ہو گا۔ اس کنٹرول کا ذریعہ دیہی اور قبائلی کمیٹیاں ہوں گی جو کسانوں پر مشتمل ہوں گی اور پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہوں گی۔ ان کمیٹیوں کے کام کو مربوط کرنے کے لیے مرکز اور صوبوں میں ”رسدی کمیشن“ تشکیل کیے جائیں جو وزارت زراعت کے ماتحت کام کریں گے۔

رسدی کمیشن، دیہی کمیٹیوں سے مشاورت کی بنیاد پر یہ اندازہ لگائے گا کہ ہر علاقہ میں اجناس کی پیداوار کتنی ہے اور اس میں کتنے فیصد علاقہ کی خوراکی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ جو پیداوار اس سے زیادہ ہو گی رسدی کمیشن اسے شہروں میں ترسیل اور تقسیم کا بندوبست کرے گی۔

یہ علاقائی ضرویات سے زیادہ پیداوار دو حصوں میں تقسیم کی جائے گی۔ ایک وہ حصہ جو کھلے بازاروں میں فروخت کیا جائے گا ایک وہ حصہ جو حکومت کو ٹیکس کے طور پر اجناس کی شکل میں دیا جائے گا تاکہ مرکزی اور صوبائی سطح پر اجناس کے ذخائر موجود رہیں۔

کسانوں کو اس بات کی ترغیب دلائی جائے گی کہ وہ اجناس کی بوائی کے علاوہ میں مستقل توسیع کرتے رہیں اور اپنی آمدنی اور دولت منجمد بینکوں میں رکھنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ پیداواری سکت بڑھانے کے لیے استعمال کریں۔ اس کے لیے دیہی علاقوں میں ایسے مشترکہ مراکز بھی قائم کیے جا سکتے ہیں جہاں کسان زرعی پیداوار کے بدل میں صنعتی اشیا (کپڑے، ریڈیو، مشینری، کھاد) حاصل کر سکتے ہیں۔

تورم سےبچنے کے لیے کوشش کی جائے کہ زرعی کاروبار کا خاصہ حصہ اشیا کے براہ راست تبدل  (Barter)کے ذریعہ ہو اور زر کا استعمال محدود رہے۔ رسدی کمیشن کی یہ بھی ذمہ داری ہو گی کہ زرعی اور چند مصنوعات کا شرح تبدل متعین کرے۔

اس نظام کی کامیاب کارفرمائی کا پورے کا پورا انحصار اس امر پر ہے کہ دیہی کمیٹیاں عام کسانوں  میں للہیت جذبہ ایثار و قربانی پیدا کرنے اور ان کو اس بات کا احساس دلانے میں کہ اسلامی انقلابی نظام کا دفاع ان کی دینی ذمہ داری ہے کتنی کامیاب ہوتی ہیں لہٰذا دیہی کمیٹیاں بنیادی طورپر دینی تنظیمیں ہوں گی جن کا مرکزی کام تبلیغ اور تلقین ہو گا۔ ان میں علما اور صوفیا کا کردار مرکزی ہو گا۔ وہ مساجد میں قائم کی جائیں گی اور لبنان کی حزب اللہ کی تنظیم کی طرح ہر انتظامی اجلاس ذکر سے شروع ہو کر ذکر ہی پر ختم کیا جائے گا۔

یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اسلامی انقلاب اصلاً ایک روحانی انقلاب ہے۔ طالبان کا اہم ترین فریضہ ہے کہ جس جذبہ اور اخلاص سے انہوں نے بیس سال تک یہ جہاد جاری رکھا ہے پوری افغان قوم کو اس ہی جذبہ ایثار اور قربانی سے سرشار کر دے۔ صرف اسی طرح سرمایہ داری کی شیطانی روحانیت حرص اور حسد کی پرستش کو شکست دی جا سکتی ہے۔ اگر طالبان نے عوام کی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے پر توجہ مرکوز کی تو انقلاب یقیناً ناکام ہو جائے گااور سرمایہ دارانہ معاشرت اور سیاست عود کر آئے گی۔

صنعتی شعبہ
افغانستان کا صنعتی اور منظم (formal)خدمتی شعبہ خالصتاً سامراج کی پیداوار ہے۔ اس شعبہ کے تنخواہ دار کارکنوں کی تعداد بھی محدود ہے اور افغانستان کی آبادی کی بہت بڑی اکثریت اپنا رزق خود پیدا کرتی ہے اور ان میں وہ کاریگر، چھوٹے کاروباری اور بازارگان بھی شامل ہیں جو صنعتی اور منظم خدمتی شعبہ سے کسی نہ کسی حد تک منسلک ہیں۔

بڑی صنعتوں میں چند گنے چنے بڑ ے کاروبار ہیں جن میں سامراجی سرمایہ کاری بھی کی گئی ہے۔ ان کو فوراً بلامعاوضہ قومیا لیا جائے۔ اس کے علاوہ ماچس، مسالاجات اور دھاگہ کی تجارت پر قومی اجارہ داری قائم کی جائے۔ دھاتوں، کان کنی اور توانائی کی صنعت پر بھی حکومتی کنٹرول نافذ کیا جائے۔ سیمنٹ، کپڑا سازی، بجلی کی صنعت کی اشیا اور لکڑی کی صنعت پر بھی حکومتی نگرانی ضروری ہے۔ ان صنعتوں میں شامل چھوٹے کاروباریوں کی سرپرستی کے لیے کونسلیں قائم کی جائیں۔ دستکاری کی صنعتوں کو فروغ دینے کے لیے کوآپریٹوز  کو منظم کیا جائے درمیانی حجم رکھنے والی فیکٹریوں کی نگرانی  شہری اور صوبائی سطح پر انتظامیہ کرے۔

ہر ایسے ادارہ میں جہاں سو سے زیادہ کارکن موجود ہوں ایک اسلامی نگران کمیٹی قائم کی جائے جو ادارہ کا پیداواری ہدف متعین کرے۔ رسد کی فراہمی اور پیداوار کی ترسیل اور مینجمنٹ کے تمام شعبوں کی نگرانی کرے۔ ادارہ میں اسلامی تبلیغ کو جاری رکھنا نگران کمیٹی کی ذمہ داری ہو۔ نگران کمیٹی میں طالبان اور دیگر مخلصین دین شامل ہوں جو عموماً ادارہ کے کارکن ہوں۔

کچھ صنعتوں میں چھوٹے اور درمیانی حجم رکھنے والی فیکٹریوں کو ٹرسٹس کی شکل میں منظم کیا جائے۔ ٹرسٹس کی انتظامیہ جس میں مرکزی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے نمایندگان بھی شامل ہوں۔ فیکٹریوں میں منافع کی تقسیم اور مصنوعات کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی نگرانی کریں۔

مرکزی ریاست اسلحہ سازی کی صنعت اور ملک میں بجلی کی ترسیل کے منصوبہ کی مکمل ذمہ داری لے۔ صنعتی شعبہ کو عسکری شعبہ سے منسلک کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ ملک کو جلد از جلد چھوٹے ہتھیاروں (بالخصوص طیارہ شکن ہتھیاروں اورمیزائلوں) میں جلد از جلد خود کفیل بنا دیا جائے۔

بڑی صنعتوں کے کارکنوں کو فوجی خطوط پر منظم کیا جائے۔ ہر بڑی اور درمیانی حجم رکھنے والی فیکٹری میں ٹریڈ یونین قائم کی جائے جس کی قیادت علما کے سپرد ہو جو مستقل فیکٹری کی نگران کمیٹی سے رابطہ میں رہے۔ ٹریڈ یونین کو فیکٹری کی مینجمنٹ میں شرکت کے اختیارات ہوں لیکن کوشش کی جائے کہ ٹریڈ یونین اسلامی روحانیت کو عام کرنے کا ذریعہ بنیں اور وہ سرمایہ دارانہ مطالبات کو فروغ دینے کی آماجگاہ نہ ہوں۔

سرکاری اور نجی شعبہ میں کارکنوں کی اجرتوں کا ایک متعین حصہ اجناس کی شکل میں دیا جائے۔ رسدی کمیشن نے زرعی شعبہ سے اجناس کا جو ذخیرہ جمع کیا ہے اس کو اسی مقصد سے استعمال کیا جائے اور زرعی اجناسی ذخیرہ اور مارکیٹ سے اجناس حاصل کرکے اجرتوں کی شکل میں دینے پر راضی کیے جائیں۔ یہ بھی شرح تورم کو کم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہو سکتا ہے۔ ملک میں اس ذخیرہ کی بنیاد پر راشننگ کا ایک نظام نافذ العمل ہو تاکہ ہر شہری کو اجناس کا ایک مقدار مستقلاً مہیا کیا جاتا رہے۔ رسدی ذخیرہ میں صنعتی پیداوار کا ایک حصہ شامل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ طے کیا جا سکتا ہے کہ بڑی اور درمیانی فیکٹریاں اپنی پیداوار کا تین چوتھائی کھلے بازار میں بیچیں گی اور ایک چوتھائی رسدی کمیشن کو تیل اور توانائی کی فراہمی کے عوض میں دیں گی۔ (شرح تبدل مرکزی ریاست طے کرے گی)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *