اپنی شرم ناک عسکری شکست کے بعد امریکا نے افغانستان میں معاشی تخریب کاری کی مہم وضع کی ہے۔ اس مہم کی چند تفاصیل OIC کی حالیہ کانفرنس میں امریکی سفارت کار Martin Griffith نے اپنے دیے گئے بیان میں پیش کی ہیں۔ اس مہم کے دو پہلو ہیں۔

ایک طرف تو امریکا نے اقوام متحدہ کے تعاون سے افغانستان میں خوف و ہراس اور عدم تحفظ کا احساس پھیلانے کے لیے اسی قسم کے جھوٹ بولنا شروع کر دیے ہیں جو وہ ماضی میں شمالی کوریا، کمبوڈیا، وینزویلا، نکاراگوا اور یمن کے بارے میں بولا کرتا تھا اور جو سب کے سب بے حقیقت ثابت ہوئے ہیں۔

سامراجی جھوٹ:

Martin Griffith نے بے غیرتی سے مندرجہ ذیل جھوٹ بولے ہیں:

1۔ افغان معیشت برباد ہو گئی ہے۔ اس بات کا اقرارنہیں کیا کہ جتنی بربادی آئی ہے اس کا اصل ذمہ دار امریکی سامراج ہے جو بیس سال سے افغانستان کو لوٹ رہا ہے۔

2۔ پوری افغان آبادی تباہ ہو رہی ہے۔

3۔ تیئیس ملین افغانی بھوکوں مر رہے ہیں (یعنی مجموعی آبادی کا ستر فیصد)

4۔ تمام افغان شہری صحتی سہولتوں سے محروم ہیں۔

5۔ ستر فیصد اساتذہ کو تنخواہ نہیں دی جا رہی۔

6۔ بیش تر بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

7۔ افغان تجارت تقریباً بالکل معطل ہو گئی ہے۔

Griffith نے یہ جھوٹ ان اعداد و شمار کے سہارے سے مرتب کیے ہیں جو اقوام متحدہ کے ادارے اور تخریب کار گھس بیٹھیے این جی اوز سامراج کو فراہم کرتی رہتی ہیں اور جن کا مقصد افغان عوام میں خوف و ہراس اور مایوسی پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس تخیلاتی تصویر کشی کی بنیاد پر امریکا نے جو سامراجی دراندازی کی حکمت عملی تجویز کی ہے وہ حسب ذیل ہے۔

سامراجی معاشی تخریب کاری کی حکمت عملی:

Griffith کے بیان سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ امریکی سامراج ڈالروں کے وسیع پھیلاؤ کے ذریعہ افغان معیشت پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔

دسمبر 2021ء میں تیس امریکی ارکان  مقننہ نے امریکا کی افغان معیشت پر از سر نو قبضہ جمانے کے لیے چار تجویزیں پیش کی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ افغانستان کے 9 بلین خارجی کرنسی کے ذخائر   کسی یو این ادارےکو دے دیے جائیں۔

2۔ امریکی sanctions کو یو این اداروں اور دیگر عالمی سرمایہ دار سامراجی اداروں کے لیے جو افغان معیشت میں دراندازی کر رہے ہیں نرم کر دیے جائیں۔

3۔ اپنی سامراجی ایجنسیوں اور کاروباروں کو افغان ملازمین کی تنخواہیں فراہم کرنے کے لیے رقوم او ر سہولتیں دی جائیں۔

4۔ بین الاقوامی سود خوری اور سٹہ باز حرام خوروں کو زری وسائل فراہم کیے جائیں تاکہ وہ افغان مالیاتی نظام پر قبضہ کر لیں۔

ان شرم ناک تجویزوں پر جزواً عمل درآمد شروع ہو گیا ہے مثلاً ورلڈ بینک نے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کو افغان بچوں میں بانٹنے کے لیے بیس ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کا ایک اور ادارہ ورلڈ فوڈ پروگرام بھی اسی قسم کی تخریب کاری کے لیے سامراجی رقوم حاصل کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذریعے امریکی سامراج افغانستان کے قبائلی اور خاندانی نظام کو اپنے سودی جال میں جکڑ لینا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ افغانستان کے بینک کاری نظام پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔

Griffith نے کہا کہ 2022ء   میں اقوام متحدہ ساڑھے چار بلین ڈالر خرچ کرے گی تاکہ 21 ملین افغانیوں (موجودہ آبادی کے 69 فیصد) کو سامراجی تخریب کاری کے زیر نگیں کر سکے۔

انقلابی حکمت عملی

کل تک امریکا افغانستان پر بموں کی بارش کر رہا تھا۔ افغان عوام کو بے دریغ قتل کر رہا تھا۔ افغان دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا تھا۔ آج وہ انسانی ہمدردی کے راگ الاپ رہا ہے۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فراہم کی گئی امداد (Humanitarian aid)ایک سامراجی ہتھیار ہے جو اب بموں کی جگہ استعمال کی جا رہی ہے۔ اس لیے اس  نئےسامراجی پینترے کو شکست دینے کے لیے مندرجہ ذیل حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

1۔ ہمیں یہ احساس ہوناچاہیے کہ اقوام متحدہ امریکی خارجہ پالیسی کا ایک ہتھیار ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ہر جگہ امریکی تخریب کاری کو جاری رکھتے ہیں۔ یہ بات شمالی کوریا، کیوبا، وینزویلا، ہانگ کانگ، ہنڈراس اور کئی دیگر ممالک کے بارے میں ثابت کی جا چکی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے وہی کردار  اب افغانستان میں ادا کر رہے ہیں۔ ان کی سخت ترین نگرانی لازمی ہے ۔ کسی صورت میں بھی ورلڈ بینک، یونیسف، یونیسکو، یو این ڈبلیو ایف پی کو افغان عوام تک رسائی حاصل نہیں کروانی چاہیے۔ اقوام متحدہ طالبان حکومت کی سیاسی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا کام کر رہی ہے۔

2۔ یہی کردار وہ این جی اوز بھی ادا کر رہی ہیں جو سامراجی پیسے اور سامرجی ذہنیت رکھنے والی اشرافیہ کے زیر تسلط ہیں۔ یہ سب سامراج کا ہراول دستہ ہیں۔ ہمیں فی الفور تمام این جی اوز کو قومیا لینا چاہیے اور ان کی قیادت مخلصین دین کے ہاتھوں میں منتقل کر دینی چاہیے۔

3۔ ہمیں تمام بین الاقوامی صحافتی ایجنسیوں اور نامہ نگاروں کو افغانستان سے فی الفور نکال دینا چاہیے اور قومی پریس پر کڑی نگرانی کا انتظام کرنا چاہیے تاکہ وہ سامراجی جھوٹ پھیلا کر عوام کو گمراہ نہ کر سکیں۔

4۔ حکومت فی الفور ایک رسدی کمیشن قائم کرے ۔ تمام بیرونی امداد یہی ادارہ وصول کرے اور اس امداد کی ملک گیر تقسیم کا یہی ادارہ ذمہ دار ہو۔ کسی غیر سرکاری ادارے کو غیر ملکی امداد حاصل کرنے کی یا عوام میں تقسیم کرنے کی اجازت نہ ہو۔

5۔ مالیاتی شعبہ میں حکومتی اجارہ داری فوراً قائم کی جائے۔ یہ مالی سامراجی تخریب کاری کو ناممکن بنانے کے لیے اشد ضروری ہے۔ تمام بینکوں اور مالیاتی اداروں کو فی الفور قومی تحویل میں بلامعاوضہ لے لیا جائے۔ معیشت سے غیر ملکی کرنسیوں (بالخصوص ڈالر اور پاکستانی روپیہ) کے پھیلاؤ کو بتدریج ختم کیا جائے۔ بتدریج ایک نئی کرنسی (اسلامی دینار) کا ملک گیر اجرا کیا جائے۔ قرضہ جاتی نظام کو تمویلی نظام سے تبدیل کیا جائے۔

6۔ انقلاب کا پہلا سال (سوویت یونین 1918، چین 1949، کوریا 1953) ہر جگہ گھمبیر ہوتا ہے۔ صورت حال اتنی گھمبیر نہیں جو سامراجی تصویر کشی سے ظاہر ہے۔ مثلاً یہ مضحکہ خیز پیش گوئی کہ 2022  میں مجموعی قومی پیداوار 30 فیصد گرے گی اور بے روزگاری کی شرح 29 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ لیکن دشوار گزارضرور ہے۔ اسلامی حکومت کو بیرونی امداد کی یقیناً ضرورت ہے۔ لیکن اس امداد کے حصول کے لیے انقلابی خود کشی کرنا دانش مندی نہیں۔

طالبان کو یہ اندازہ کر لینا چاہیے کہ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ حکومتیں ان کی ہمدرد اور بہی خواہ نہیں۔ ان کے فطری ہمدرد وہ مخلصین دین ہیں جو لاکھوں مدارس اور مساجد میں موجود ہیں۔ جلد از جلد پاکستان، ایران، ترکی، ملائشیا اور انڈونیشیا میں افغان اعانتی فنڈ قائم کرنے کے

لیے ان ممالک کے علما، ائمہ مساجد، تجار، صنعت کار اور اسلامی جماعتوں سے روابط پیدا کرنا چاہیے تاکہ حصولِ وسائل کا ایک ہمہ گیر نظام قائم ہو جائے اور ان حلقوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ افغان انقلاب ان کا اپنا انقلاب ہے اور اس کی مدد کرنا اپنے ملک کی تحریک تحفظ اور غلبہ  دین کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔

Working Group on Afghan Economy


Notice: Function WP_List_Util::pluck was called incorrectly. Values for the input array must be either objects or arrays. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.2.0.) in C:\inetpub\vhosts\workinggrouponafghaneconomy.com\httpdocs\wp-includes\functions.php on line 5866

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *