طالبان کی حکومت قحط سالی کا مقابلہ کیسے کرے؟

آج سامراج افغانستا ن میں قحط سالی پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے تاکہ انقلابی حکومت سامراجی بھیک قبول کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس بھیک کی بھاری سیاسی قیمت وصول کی جا سکے۔ اس قیمت کی نشان دہی United Nations Population Fund کی ڈائریکٹر نے واضح کر دی ہے۔ اسی ادارہ نے افغانستان کے دیسی نظام میں اپنا قبضہ مستحکم کرنے کی امید کا اظہار کیا ہے اور وہ وہاں کے غذائی نظام پر قبضہ کرنے کا عزم رکھتی ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے جو بھیک فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں اس کے بدلے میں افغانستان  میں خواتین کی سرمایہ دارانہ آزادیوں کے فروغ کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ اسلامی معاشرت کی جڑیں کھوکھلی ہوجائیں اور عیاشی اور فحاشی کے پھیلاؤ کے لیے حکومت کو مجبور کیا جا سکے۔ لہٰذا غذائی اور زرعی نظام سے اقوام متحدہ کے اداروں کو بے دخل کرنا انقلابی ضروریات میں سے ہے۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اقوام متحدہ ایک سامراجی ہتھیار ہے جس کو امریکا اور اس کے حلیف اپنی تخریب کاری کے لیے مستقل استعمال کرتے رہتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ افغانستان کا خوراکی نظام مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور بالخصوص آنے والے موسم سرما میں ترسیل خوراک (بالخصوص ملک کے دور دراز علاقوں میں) مشکل ہو جائے گی لیکن نہ یہ ضروری ہے کہ افغانستان میں خوراکی بحران آئے اور نہ یہ ضروری ہے کہ انقلابی حکومت سامراجی بھیک پر انحصار کرے۔

لیکن یہ یقیناً ضروری ہے کہ خوراکی پیداواری اور ترسیلی نظام کی مناسب ترتیب نو کی جائے اور اس ترتیب نو کا ذمہ دار ،انقلابی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس شعبہ جاتی ترتیب نو کے لیے سوویت یونین کے جنگی کمیونین تجربات مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ 1918ء سے 1921ء تک سوویت یونین کا خوراکی بحران آج کے افغانستان کے مقابلہ میں کہیں زیادہ گھمبیر تھا اور اس پر بخوبی قابوپالیا گیا ۔

انقلابی اسلامی حکومت کو خوراکی نظام کی ترتیب نو کے لیے مندرجہ ذیل اقدام کرنے چاہئیں۔

1۔ تمام غیر ملکی میڈیا کے نمایندوں کو ملک سے فوراً نکال دینا چاہیے اور اقوام متحدہ کے اداروں کی اشاعتی سرگرمیوں کو ممنوع قرار دینا چاہیے کیونکہ یہی ایجنسیاں مفروضہ خوراکی بحران کی جھوٹی خبریں پھیلا کر عوام کو گمراہ کرتی ہیں۔

2۔ ملکی میڈیا کو قومیا لینا چاہیے کہ اس میں بیٹھے سامراجی آلہ کار افواہ سازی کی اس مہم کو جاری نہ رکھ سکیں۔

3۔ مرکزی، صوبائی اور مقامی سطح پر خوراکی انتظامیہ کا قیام جو ملکی، صوبائی اور مقامی سطح پر سہ ماہی بنیادوں پر خوراکی ضروریات اور رسد کا تخمینہ جلد از جلد لگائیں۔

4۔ ان تخمینوں کی بنیاد پر 22-2021ء کے لیے ایک ملکی خوراکی منصوبہ کی تیاری جو علاقائی سطح پر فراہمی خوراک کی نشان دہی کرے۔

5۔ اس منصوبہ کی تنفیذ کے لیے مندرجہ ذیل اقدام

​1۔ مرکزی اور صوبائی سطح پر ریاستی اجناسی ذخیرہ کا قیام

​2۔ نظام ترسیل خوراک پر ریاستی کنٹرول

​3۔ کاشت کاروں سے فاضل پیداوار (اجناس کی پیداوار کا وہ حصہ جو گھرانے استعمال نہیں کرتے) کو متعین قیمتوں پر خریدنے کا قیام یعنی خوراکی کاروبار پر ریاستی اجارہ داری کا قیام

​4۔ اجناس کی جو قیمتیں 22-2021ء کے لیے متعین کی جائیں وہ 2021ء کی بازاری قیمتوں کے مطابق ہوں۔

​5۔ ان اجناس کو خریدنے کے لیے حکومت نئی کرنسی اسلامی دینار استعمال کرے۔

​6۔ اگر کوئی خوراکی امداد سرمایہ دارانہ ادارہ فراہم کرے تو وہ براہ راست مرکزی ذخیرہ اجناس میں جمع کی جائے اور اس کی عوامی ترسیل میں کسی غیر ملکی ادارہ بالخصوص اقوام متحدہ کے اداروں کا کوئی کردار نہ ہو۔

​7۔ بین الاقوامی تجارت کو قومیا لیا جائے۔ تمام درآمدات اور برآمدات حکومت کے ذریعہ جاری کیے جائیں اور تمام زر مبادلہ حکومتی تحویل میں ہو۔

​8۔ اگر ملکی خوراکی ضروریات ملکی خوراکی رسد سے زیادہ ہوں تو ان کو درآمدات سے پورا کیا جائے۔ کوشش کی جائے کہ زیادہ سے زیادہ خوراکی برآمدات مسلم ممالک بالخصوص ایران، ترکی ، پاکستان، ملائشیا اور انڈونیشیا سے ہوں۔

​9۔ ایران، ترکی، پاکستان، ملائشیا، انڈونیشیا میں اسلامی جماعتوں ، مدرسوں اور مساجد کے ذریعہ افغان خوراکی فنڈ قائم کیے جائیں جن میں مخلصین دین سے گزارش کی جائے کہ وہ عطیات ، زکوٰۃ ، صدقات اور خیرات کے ذریعہ افغانستان کے حصول خوراک کے لیے رقوم فراہم کریں۔ یہ تمام فنڈ غیر سرکاری ہوں اور جو ممالک افغان حکومت کو تسلیم کر لیں ان میں ان کی کارفرمائی رائج قانونی نظام کے تحت  ہو۔





​10۔ اس پوری مہم کو خوراکی جہاد کا عنوان دیا جائے۔ افغان مخلصین دین کو یہ احساس دلایا جائے کہ کافر دشمن اپنی تخریب کاری افغانستان میں خوراکی بحران پیدا کرکے جاری رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ملکی، صوبائی اور مقامی سطح پر خوراکی انتظامیہ میں زیادہ سے زیادہ علماء، مشائخ، قبائلی سردار، طلبہ اور مخلصین دین شامل کیے جائیں اور یہ بات پھیلائی جائے کہ اجناس کی ذخیرہ اندوزی شرع مطہرہ کے مطابق کبیرہ گناہ ہے اور کاشت کاروں کا فرض ہے کہ فاضل پیداوار حکومت کے متعین کردہ داموں پر مرکزی اور صوبائی ذخیرہ اجناس کے ہاتھ فروخت کریں۔

​11۔ مرکزی اور صوبائی ذخیرہ اندوز اداروں کو اپنی حاصل شدہ اجناس نجی کاروباریوں کو فروخت کر دینا چاہیے لیکن خوراکی انتظامیہ کی ذمہ داری ہو کہ کاروباری اجناس کو حکومت کے متعین شدہ نرخوں ہی پر فروخت کریں اور فوج کی ذمہ داری ہو کہ ذخیرہ اندوزی کی سخت سے سخت سزائیں دیں۔

​12۔ اگر خوراکی منصوبہ سے ظاہر ہو کہ خوراکی ضروریات 22-2021ء میں مجموعی خوراک رسد سے زیادہ ہیں تو ان کو کم کرنے کے لیے شہروں میں راشننگ کا نظام بھی نافذ کیا جا سکتا ہے۔

بنیادی طورپر افغانستان خوراکی طور پر خودکفیل ہونے کی پوری استطاعت رکھتا ہے۔ کیونکہ وہاں کی آبادی کی اکثریت اپنا رزق خود پیدا کرتی ہے لیکن انقلاب کے پہلے سال ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔مگر تاریخ میں کئی مرتبہ اس قسم کے بحرانوں سے کامیابی سے نبٹا جا چکا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ طالبان عالیشان جو میدان کارزار میں بیس سال تک ڈٹے رہے ہیں حکومتی محاذ پر بھی کامیاب نہ ہو جائیں۔ بشرطیکہ وہ جہاد جاری رکھنے کا مصمم ارادہ قائم رکھیں۔ ہماری دعا ہے اور ہمیں پوری امید ہے کہ وہ مرتے ہوئے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو شکستوں پر شکستیں دیتے رہیں گے ۔ 

یہ جنگ رہے گی جاری

آئی ہے ہماری باری

Working Group on Afghan Economy


Notice: Function WP_List_Util::pluck was called incorrectly. Values for the input array must be either objects or arrays. Please see Debugging in WordPress for more information. (This message was added in version 6.2.0.) in C:\inetpub\vhosts\workinggrouponafghaneconomy.com\httpdocs\wp-includes\functions.php on line 5866

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *