ملکی خود مختاری اور اسلامی نظام معاشیات کے استحکام کے لیے کرسنی کی اہمیت اور اس سلسلے میں اقدامات کی تفصیلات:

امریکا مستقل افغانستان میں فاقہ کشی اور معاشی بدحالی کی جھوٹی افواہیں پھیلا رہا ہے۔ یہ سب افواہیں جھوٹی ہیں۔ افغانستان عوامی فاقہ کشی سے بچ سکتاہے اور اس گروپ نے اس سلسلہ میں حکمت عملی تجویز کی ہے۔ افواہ سازی کی اس مہم کا مقصد طالبان کو عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی ماتحتی قبول کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ اس ضمن میں امریکا یہ منصوبہ بندی کر رہا ہے کہ افغانستان میں ڈالروں کی بھرمار کر دے ۔ وہ طالبان کو اس بات پر راضی کرنا چاہتا ہے کہ یہ ڈالر حکومت کو نہ دیے جائیں بلکہ سامراج کے پٹھوؤں کے ذریعہ ان کو عوام میں تقسیم کیا جاتا رہے۔ اگر اس منصوبہ پر عمل کیا گیا تو افغانستان کی قومی خود حاکمیت بری طرح مجروح ہو جائے گی۔ ڈالروں کی آمدو خرچ پر حکومتی کنٹرول ختم ہو جائے گا۔افغانی کرنسی بے قدر ہوتی چلی جائے گی اور زر کا یہ تقسیمی نظام بڑے پیمانے پر معاشی کرپشن کو فروغ دے گا۔ ان حالات میں افغان حکومت کی خود مختاری کے کوئی معنی نہیں رہیں گے۔ 1996ء تا 2001ء کے دوران بھی طالبان کی حکومت کی ایک بنیادی کمزوری یہ رہی تھی کہ اس کا کنٹرول بیرونی کرنسیوں کی آمدورفت پر بالکل واجبی تھا۔ پاکستانی روپیہ اور ڈالر افغان معیشت میں آزادانہ گردش کرتے رہے جس کے نتیجہ میں افغانستان کی قومی کرنسی بے قدر ہوتی رہی اور ساہوکاروں اور کرنسی خرید و فروخت کرنے والوں کو سودی سٹہ بازی کی بنیاد پر کاروبار جاری رکھنے کا موقع ملا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ طالبان کی حکومت اس امریکی چال کو ناکام بنا دے اور ایک ایسا نظام زر نافذ کرے جس سے ملکی معاشی خودمختاری مستحکم ہو۔ یہ بات طالبان کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہر سرمایہ دارانہ زر کی طرح ڈالر بھی ایک ایسا زر ہے جو امریکی حکومت کے سودی تمسکات کی بنیاد پر جاری کیا جاتا ہے۔ اگر افغان نظام زر ڈالرائز ہو گیا تو اس کا تعلق بالواسطہ طور پر عالمی سودی نظام سے قائم اور مستحکم ہو تا چلا جائے گا اور جتنی بیرونی سرمایہ کاری اور امداد افغانستان میں آئے گی وہ سب افغان نظام زر کو عالمی سودی بازاروں سے منسلک کرنے کا کام انجام دے گی ملک میں غیر سودی تمویلی (فنانشل) نظام قائم کرنا ہے تو لازم ہے کہ ۔ افغان معیشت میں ذریعہ تبدل اور پیمانہ قدر (میڈیئم آف ایکسچیج )صرف ملک کی اپنی کرنسی ہو۔ اس گروپ کی تجویز ہے کہ یہ کرنسی اسلامی دینار ہو۔ ۔ اس کرنسی کے اجرا کی اجارہ داری حکومت افغانستان کے پاس ہو اور اس سے متعلق قرضہ جات کی اجارہ داری بھی قومیائے گئے بینکوں کی اجارہ داری میں ہو۔ اسلامی دینار ایک ایسی کرنسی ہو جس کی ساکھ کسی شے (سونا چاندی یا بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر) سے وابستہ نہ ہو۔ ۔ بیرونی ترسیل زر کے تمام ذرائع (برآمدات، درآمدات، سرمایہ کاری، امداد) پر حکومتی اجارہ داری قائم ہو۔ ۔ اسلامی دینار کی ملکی اور بین الاقوامی قدر حکومت خود متعین کرے۔ تمام حاصل شدہ بیرون زر حکومت کی تحویل میں ہو اور حکومت اسی بیرونی زر کی ملکی تقسیم کرے، اس کو متعین شدہ شرح تبدل کے مطابق اسلامی دینار میں تبدیل کر کے ۔ ۔ غیر ملکی کرنسی کی ملک میں استعمال پر مطلق پابندی نافذ کی جائے اور فوج کے ذریعہ اس کے حکم کی تنفیذ کی جائے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ ۔ ایران سے ایک علاقائی کرنسی یونین کے قیام کے لیے مکالمہ کی ابتدا کی جائے۔ ۔ ایران، پاکستان اور ترکی سے تجارت شے کے بدلے شے کے ذریعہ فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ ۔ ایران، پاکستان اور ترکی کے مرکزی بینکوں سے غیر سودی بنیادوں پر کرنسی کے آپس کے تبادلے کے لیے مکالمہ شروع کیاجائے۔ ۔ کرنسی نظام کو ملکی معاشی خود مختاری کا ذریعہ بنانے کے لیے یہ پالیسی اختیار کرنا ضروری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *